Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3




منٹو کے افسانے 3
سپاہی اور موت
پچیس سالہ خدمات کے دوران میں سپاہی کے بر خلاف افسران بالا کو کبھی شکایت کا موقع نہ ملا تھا۔ اس نے اپنی خدمات بڑی تند ہی اور جانفشانی سے سر انجام دی تھیں جب اس نے چاہا کہ نو کری سے مستعفی ہو کر زندگی کے بقایا ایام آرام سے گزارے تو افسران بالا نے اس کی در خواست رد کر دی۔ ’’ میں خدا اور زار کی پورے پچیس سال خدمت بجا لایا ہوں اور اس دوران میں میرے متعلق کبھی شکایت کا موقع نہیں ملا۔ مگر اب جب کہ میں چاہتا ہوں کہ چند دن آرام سے گزاروں تو انہوں نے میری درخواست مسترد کر دی۔ اس سے یہی بہتر ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے بھاگ نکلوں۔‘‘ سپاہی نے بڑی سوچ کے بعد فیصلہ کیا۔ چنانچہ وہ ایک دن بھاگ نکلا۔تین دن کی بھاگم بھاگ کے بعد اسے راستے میں خدا ملا۔ ’’ کیوں میاں سپاہی؟ کہاں جا رہے ہوں ؟‘‘ خدا نے سپاہی سے دریافت کیا۔ ’’ میرے مالک! میں پورے پچیس سال اپنی خدمات ایماندارانہ بجا لایا ہوں۔ مگر اب وہ میرا استعفیٰ قبول نہیں کرتے۔ اس لئے میں ان سے بھاگ رہا ہوں۔‘‘ ’’ جب تم نے پچیس سال تک اپنی خدمات بطریق احسن سر انجام دی ہیں تو آؤ! تمہیں اجازت ہے کہ میری بادشاہت میں داخل ہو جاؤ.... بہشت کے دروازے تم پر کھلے ہیں۔‘‘ چنانچہ بہشت کے دروازے کھل گئے۔ سپاہی اندر داخل ہو گیا۔ بہشت کی لطیف فضا اور پر کیف مناظر کو دیکھ کر دل میں کہنے لگا۔‘‘ ’’ زندگی اسی کا نام ہے۔‘‘ ’’ باغوں میں ٹہلتا ہوا فرشتوں کے پاس گیا اور کہنے لگا’’ آپ مجھے تمباکو بیچنے والے کی دوکان بتا سکتے ہیں ؟‘‘ کونسا تمباکو؟.... میاں ! تم اس وقت فوج میں نہیں ہو۔ یہ بہشت ہے.... خدا کی بادشاہت میں تمباکو کہاں ؟‘‘ سپاہی چپ ہو گیا.... مگر تھوڑی دیر کے بعد پھر ان فرشتوں کے پاس گیا اور کہنے لگا۔’’ تو پھر یہی بتلا دیجئے۔شراب کہاں ملتی ہے؟‘‘ ’’ او خاکی پتلے.... تیرا ابھی تک یہی خیال ہے کہ تو فوج میں ہے۔ بہشت میں شراب کہاں ؟‘‘ ’’ یہ بہشت کس طرح ہو سکتا ہے جہاں شراب اور تمباکو ہی نہیں ملتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بہشت سے باہر چلا گیا.... وہ ایسی جگہ رہنے کو تیار نہ تھا جہاں شراب اور تمباکو نہ ملے۔زمین پر وہ بہت عرصہ تک چلتا رہا حتیٰ کہ اس کی خدا سے پھر ملاقات ہو گئی۔ ’’ یہ بہشت کیسی جگہ ہے میرے خدا؟.... جہاں تم نے مجھے بھیجا تھا وہاں تو تمباکو اور شراب ہی نہیں ملتی۔‘‘ ’’ بہت اچھا!.... اپنے داہنے ہاتھ کو چلے جاؤ۔ تمہیں وہاں ہر ایک شے مل جائے گی۔‘‘ وہ اپنے داہنے ہاتھ کی طرف چل پڑا.... راستے میں اسے بد روح ملی۔ ’’میاں سپاہی! کسے ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘ ’’ پہلے مجھے کسی جگہ لے چلو.... تاکہ اطمینان سے گفتگو ہو سکے۔ چنانچہ سپاہی کو وہ ناپاک روح ایک گرم جگہ لے گئی۔ آپ کے ہاں تمباکو ہے کیا؟ سپاہی نے ناپاک روح سے دریافت کیا۔ ’’ ہے! میرے اچھے سپاہی۔‘‘ ’’ شراب بھی؟‘‘ ’’ شراب بھی۔‘‘ ’’ تو لاؤ.... دونوں چیزیں لاؤ۔‘‘ چشم زدن میں اس ناپاک روح نے دونوں چیزیں حاضر کر دیں۔ جب سپاہی کو دونوں چیزیں مل گئیں تو بہت خوش ہوا اور کہنے لگا۔ بہشت یہی ہے۔‘‘ لیکن جب گھومنے کے لئے باہر نکلا تو اسے بہت سی ناپاک روحیں نظر پڑیں جن کی شکلیں دیکھ کر وہ بہت گھبرا گیا.... چند دنوں کے بعد اس قدر اداس ہوا کہ سوچنے لگا کیا کرے۔‘‘ اچانک ایک روز اس کے دماغ میں ایک عجیب خیال آیا۔ لکڑی کا ایک گز بنا کر زمین ماپنے لگا کہ شیطان دوڑتا ہوا آیا اور پوچھنے لگا’’ کیا کر رہے ہو؟‘‘ ’’ میاں سپاہی! کیا اندھے ہو؟ دیکھ نہیں رہے میں یہاں معبد بنانے لگا ہوں۔‘‘ شیطان دوڑتا ہوا اپنے بوڑھے دادا کے پاس گیا اور چلا کر کہنے لگا’’ محترم دادا! ہم تباہ ہو گئے.... یہ انسان یہاں معبد بنانے لگا ہے۔‘‘ یہ سن کر بوڑھا شیطان تھر تھر کانپتا ہوا خدا کے حضور میں گیا اور کہنے لگا’’ خداوند! آپ نے ہمارے پاس کس قسم کا انسان بھیجا ہے جو ہماری جگہ پر معبد بنانا چاہتا ہے۔‘‘ اس میں میرا کیا قصور؟.... تم نے ایسے انسان کو اپنی جگہ میں داخل ہی کیوں کیا؟‘‘ ’’ خداوند! کسی نہ کسی طرح اس سپاہی کو واپس بلا لیجئے۔‘‘ ’’ میں اسے کس طرح بلا لوں۔ وہ تو خود چاہتا تھا کہ تمہارے پاس جائے۔‘ ’’آہ اب ہم ناچیز کیا تدبیر عمل میں لائیں۔‘‘بوڑھے شیطان نے روتے ہوئے کہا۔ خدا نے با رعب لہجہ میں جواب دیا۔’’ جاؤ! کسی نوجوان شیطان کی کھال اتار کر اس کا ڈھول بناؤ۔اس ڈھول کی آواز ہی اس سپاہی کو وہاں سے دور کر سکتی ہے۔‘‘ بوڑھے شیطان نے آتے ہی ایک نوجوان شیطان کو پکڑا اور اس کی کھال اتار کر ایک ڈھول پر منڈھ لی۔ سب کچھ تیار کر کے اس نے تمام شیطانوں کو اکٹھا کر کے حکم دیا۔’’ دیکھو! جونہی یہ سپاہی اس جگہ سے بھاگے۔ تم دروازے بند کر لو تاکہ وہ پھر یہاں نہ آ سکے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ڈھول پر ضربیں لگانی شروع کیں۔ ڈھول کی آواز سن کر سپاہی اس جگہ سے اٹھ دوڑا۔ جیسے وہ پاگل ہو گیا ہو۔ جونہی وہ دروازے سے باہر نکلا۔ شیطانوں نے تمام دروازے بند کر لئے۔ سپاہی نے جب دیکھا کہ دروازے بند ہیں تو دستک دینی شروع کی’’ دروازہ کھول دو۔ ورنہ دیوار پھوڑ کر اندر آ جاؤں گا۔‘‘ ’’ تم ایسا نہیں کر سکتے میرے بھائی! ہم تم سے کہیں طاقتور ہیں۔‘‘ شیطانوں نے جواب دیا۔ جب سپاہی نے دیکھا کہ اب اس کا کوئی بس نہیں چلتا۔ تو سر لٹکا کر پھر زمین پر چلنا شروع کر دیا۔ دو تین دن کی آوارہ گردی کے بعد اسے پھر خدا ملا۔ ’’ میاں سپاہی ! کہاں جا رہے ہو۔‘‘ خدا نے دریافت کیا۔ ’’ مجھے خود علم نہیں۔‘‘ تو اب بتاؤ کہاں جانا چاہتے ہو۔ بہشت میں بھیجا تو وہ تمہیں پسند نہ آیا۔ دوزخ میں گئے تو وہاں تم نہ رہ سکے۔ اب کہاں جانے کی خواہش ہے؟‘‘ ’’ میرے خدا!مجھے اپنے دربار کا محافظ بنا لے۔‘‘ ’’ بہت اچھا۔‘‘ چنانچہ خدا نے اسے اپنے محل کے دروازے پر کھڑا کر دیا اور کہا: دیکھو خیال رہے کوئی شخص اندر نہ آنے پائے۔ ’’ بوڑھے سپاہی کو آپ کیا سکھلا رہے ہیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل کی جائے گی۔‘‘ سپاہی بہت عرصہ تک دروازہ پر پہرہ دیتا رہا اور کسی کو اندر نہ جانے دیا۔ آخر ایک دن کے بعد’’ موت‘‘ آئی۔ ’’ کون گزر رہا ہے۔ سپاہی نے کڑک کر پوچھا۔ ’’ موت۔‘‘ ’’ کس کے پاس جا رہی ہو۔‘‘ ’’ خدا کے پاس۔‘‘ ’’ کس لئے۔‘‘ ’’ حکم لینے کے لئے اب کن اشخاص کی جانیں قبض کروں۔‘‘ ’’ تو تھوڑی دیر کے لئے انتظار کرو۔ میں خدا سے اجازت لے آؤں۔ ’’ خداوند! موت دروازے پر کھڑی آپ کے احکام کی منتظر ہے۔‘‘ ’’ جاؤ ! اسے حکم دو کہ آئندہ تین سال تک وہ بوڑھے انسانوں کو ہلاک کرتی رہے۔ یہ سن کر سپاہی نے خیال کیا کہ اس طرح تو اس کے بوڑھے والدین بھی ہلاک ہو جائیں گے۔ اس لئے موت کے پاس آ کر کہا’’ خدا نے تمہیں حکم دیا ہے کہ جنگلوں میں جا کر تین سال تک پرانے اور بوڑھے درختوں کو اکھیڑتی رہو۔ موت یہ سن کر رو پڑی۔ اور کہنے لگی’’ خداوند میرے ساتھ ناراض ہیں جو مجھے ایسی سزا دے رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتی ہوئی موت جنگلوں میں چلی گئی اور تین سال تک جوان اور سر سبز درختوں کو اکھیڑتی رہی۔ تین سال بعد اپنے آپ کو بمشکل گھسیٹتی ہوئی پھر خدا کے حضور میں نئے احکام کی خاطر آئی۔‘‘ ’’ کہاں جا رہی ہوں ؟‘‘ سپاہی نے موت سے دریافت کیا۔ ’’ خدا کے پاس۔ دریافت کرنے کے اب کن اشخاص کو ہلاک کروں۔‘‘ ’’ تو تھوڑی دیر کے لئے یہاں انتظار کرو.... میں ابھی اجازت لے کر آیا۔ چنانچہ وہ ایک پھر خدا کے پاس گیا اور کہنے لگا۔’’ خداوند! موت پھر نئے احکام لینے کی خاطر حاضر خدمت ہوئی ہے۔‘‘ ’’ جاؤ اسے کہہ دو کہ وہ تین سال تک چھوٹے بچوں کو ہلاک کرتی رہے۔‘‘ سپاہی نے خیال کیا کہ اس کے تین بچے ہیں۔ اس طرح وہ بھی مر جائیں گے اس لئے موت کے پاس آیا اور کہا’’ خدا نے حکم دیا ہے کہ جنگلوں میں پھر واپس جاؤ اور تین سال تک چھوٹے پودوں کو ہلاک کرتی رہو۔ یہ سن کر موت زار و قطار رونے لگی’’ میں نے کون سا ایسا گناہ کیا ہے جس کی سزا بھگت رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پھر جنگلوں میں چلی گئی اور تین سال تک چھوٹے پودوں کو ضائع کرتی رہی۔ تین سال کے بعد لنگڑاتی ہوئی پھر خدا کے حضور میں آئی اور دل میں عہد کر لیا کہ جو کچھ بھی ہو میں خود خدا کے پاس جاؤں گی اور دریافت کروں گی کہ خدا نے اسے کیوں نو سال تک اتنی سخت سزا دی۔ سپاہی نے موت کو سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دیکھا، تو کہنے لگا’’ کہاں جا رہی ہوں ‘‘ موت نے کچھ جواب نہ دیا اور سیڑھیوں پر چڑھتی گئی۔ جب سپاہی نے دیکھا کہ موت کچھ جواب نہیں دیتی تو اس نے موت کو گردن سے پکڑ لیا اور خدا کے دربار میں نہ جانے دیا۔ موت بہت چیخی چلائی۔ ادھر سپاہی نے بھی خوب شور مچایا۔ خدا یہ شور سن کر باہر آگیا اور کہنے لگا’’ یہ کیا شور مچا رکھا ہے تم نے؟‘‘ ’’ خداوند! آپ میرے ساتھ اس قدر ناراض کیوں ہیں ؟ میں پورے نو سال تک جنگلوں میں سر پٹکتی رہی ہوں۔ تین سال تک سال خوردہ درخت اکھیڑتی رہی۔تین سال تک جوان اور سرسبز درختوں کو ہلاک کرتی رہی اور اسی عرصہ تک پودوں کو ضائع کرتی رہی۔ آخر ایسی سزا کس گناہ کی پاداش میں ؟ یہ سن کر خدا نے سپاہی کی طرف غضبناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا’’ یہ سب شرارتیں تمہاری معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ ’’میں معافی چاہتا ہوں .... خداوند۔‘‘ سپاہی نے تھر تھر کانپتے ہوئے کہا۔ ’’ تمہیں سزا دی جاتی ہے کہ موت کو نو سال تک اپنے کندھوں پر ہی اٹھائے پھرو۔ حکم ملنا تھا کہ موت سپاہی کے کندھوں پر چڑھ گئی اور سپاہی اسے اٹھائے چل پڑا۔ وہ بہت عرصہ تک موت کو اسی طرح اٹھائے چلتا رہا۔ مگر آخر کار تھک کر چُور ہو گیا اور جیب سے نسوار کی ڈبیا نکال کر سونگھنے لگا۔ موت نے دیکھا کہ سپاہی کچھ سونگھ رہا ہے۔ حیران ہو کر کہنے لگی’’میاں سپاہی! کیا سونگھ رہے ہوں ....مجھے بھی دو۔‘‘ ’’ کندھوں سے نیچے اتر آؤ اور ڈبیا میں بیٹھ کر جتنا چاہو سونگھو ‘‘ ’’ اچھا تو ڈبیا کا ڈھکنا کھول دو۔‘‘ سپاہی نے ڈبیا کا ڈھکنا کھول دیا اور جونہی موت ڈبیا میں آئی، جھٹ سے ڈبیا بند کر لی اور ڈبیا کو اپنے بوٹ میں رکھ لیا۔ اتنا کر کے وہ پھر خدا کے دربار میں گیا اور اپنی پرانی جگہ پر کھڑا ہو گیا۔ جب خدا نے اسے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا’’ ارے! موت کہاں رکھی ہے تم نے۔‘‘ ’’ میرے پاس ہے! خداوند!‘‘ ’’ تمہارے پاس ؟‘‘ ’’ جی ہاں ! اس وقت میرے بوٹ میں ہے۔‘‘ دکھاؤ تو۔‘‘ ’’ نہیں جی! میں نہیں دکھانے کا.... اسے نو سال تک وہیں قید رہنا چاہئے.... نو سال تک موت کو اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھنا کوئی مذاق نہیں .... وہاں رہنے دیجئے اسے۔‘‘ ’’ تم اسے باہر تو نکالو.... میں نے تمہاری خطا کو معاف کر دیا۔‘‘ چنانچہ سپاہی نے اپنے بوٹ کے تسمے کھولے اور نسوار کی ڈبیا نکال کر اس کا ڈھکنا کھول دیا.... ڈھکنے کا کھلنا تھا کہ موت لپک کر اس کے کندھوں پر سوار ہو گئی۔ خدا نے موت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا’’ تم میں اتنی عقل نہیں کہ اپنا حکم بجا لا سکو، اس لئے کندھوں سے اتر آؤ۔‘‘ موت کندھوں سے اتر آئی۔ ’’ لو اب تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس سپاہی کی روح قبض کر لو۔‘‘ ’’ میاں سپاہی! اب مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔‘‘ موت نے سپاہی کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ جلدی کا ہے کی ہے۔ مرنا تو آ خر ہے ہی لیکن پہلے مجھے اس وقت کے لئے تیار تو ہو لینے دو۔‘‘ ’’ بہت بہتر۔‘‘ چنانچہ سپاہی ایک سفید کفن اوڑھ کے تابوت میں لیٹ گیا۔ ’’ کیا اب تیار ہو؟‘‘ موت نے سپاہی سے دریافت کیا۔ ’’ بالکل۔‘‘ ’’ اب اچھی طرح تابوت میں لیٹ جاؤ۔‘‘ سپاہی پیٹ کے بل تابوت میں لیٹ گیا۔ ’’ یہ کس طرح لیٹ رہے ہو تم؟‘‘ ’’تو پھر کس طرح لیٹوں ؟‘‘ ’’ یہ بھی بھلا کوئی لیٹنے کا طریقہ ہے۔ تمہارے لئے اس حالت میں مرنا درست ہو گا۔‘‘ سپاہی پہلو کے بل لیٹ گیا۔ ’’ آہ ! میرے خدا! کیسے بے وقوف انسان سے پالا پڑا ہے۔ کیا تم نے کبھی مُردوں کو تابوت میں لیٹے ہوئے نہیں دیکھا۔ نکلو باہر میں تمہیں بتاؤں۔‘‘ سپاہی تابوت سے باہر نکل آیا اور موت اس کو طریقہ بتانے کے لئے تابوت میں لیٹ گئی۔ اس کا لیٹنا تھا کہ سپاہی نے تابوت کا ڈھکنا بند کر دیا اور اس پر مضبوطی سے کیل جڑ دیئے۔ اس طرح موت کو تابوت میں قید کر کے اس نے تابوت اٹھا یا اور دریا برد کر دیا۔ موت کو دریا کے سپرد کرنے کے بعد اس نے پھر خدا کے دربار پہرہ دینا شروع کر دیا۔ جب خدا نے اسے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا ’’ ارے! موت کہاں ہے؟‘‘ ’ میں نے اسے دریا برد کر دیا ہے.... میرے مالک!‘‘ خدا نے نظر دوڑائی تو موت کو دریا میں بہتے ہوئے دیکھا۔ اسے دریا سے نکال کر غضبناک لہجہ میں پوچھا ’’میں نے جو تمہیں حکم دیا تھا کہ اس سپاہی کو ہلاک کر دو۔‘‘ ’’ میرے مالک! یہ سپاہی بہت مکار ہے۔ میری اس کے سامنے ایک نہیں چلتی۔‘‘ دیکھو اب اس کے جھانسے میں نہ آنا۔ تمہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو فوراً ہلاک کر دو۔‘‘ بعض کہتے ہیں کہ موت نے سپاہی کو ہلاک کر دیا لیکن بعض خیال کرتے ہیں کہ سپاہی نے موت کو پھر دھوکا دے دیا اور اس طرح بہت عرصہ تک زندہ رہا اور ابھی اسے مرے تھوڑا عرصہ گزرا ہے۔ .........

   1
0 Comments